Larkon ki Dewani Episode 01



عمر کا موٹو میرے اندر تھا میں نے محسوس کیا کہ عمر اب میرے ساتھ زیادہ تیزی سے کر رہا ہے اور مجھے بھی زیادہ مزہ آنے لگا تھا عمر کا موٹو کافی موٹا بھی تھا اور   سخت بھی کافی تھا عمر کا موٹو اب موٹے سخت ڈنڈے کی طرح میرے اندر باہر ہو رہا تھا اور اس کے موٹو کی وجہ سے میرے منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکل رہی تھیں عمر نے اندر باہر کرتے ہوئے کہا کہ کیا تمہیں مزہ آ رہا ہے میں نے کہا کہ ہاں مجھے مزہ بہت زیادہ آ رہا ہے مگر تم ذرا تیزی کے ساتھ اندر باہر کرو مجھے تیز تیز کرو عمر اور بھی تیزی سے اندر باہر کرنے لگا مگر مجھے تو اب اور بھی تیزی کے ساتھ اندر باہر کروانا تھا میں نے کہا کہ تم رکو تم سے نہیں ہوگا میں نے اسی حالت میں عمر کو ایک مشین کی طرح تیزی سے جھٹکے مار رہی تھی عمر کا پورا وجود ہل رہا تھا عمر جلدی فری ہو گیا تھا مگر میں فری نہیں ہو پا رہی تھی میں عمر کے فری ہونے کے باوجود بھی زور زور سے جھٹکے مار رہی تھی عمر نے کہا کہ میں فری ہو چکا ہوں میں نے اس کی نہ سنی میں سنتی بھی کیا مجھے تو اب کچھ نظر ہی نہیں آرہا تھا مجھے تو اب کسی طرح سے فری ہونا تھا اور فری ہونے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ عمر کا موٹو میرے اندر باہر ہوتا رہے اور عمر کے فری ہونے کی وجہ سے عمر کا موٹو اب سست اور اس کی سختی میں بھی کمی آ رہی تھی اور مجھے اس بات سے الجھن ہو رہی تھی اور پھر وہی ہوا جو ہر بار ہوتا تھا عمر تو اچھے سے فری ہو گیا تھا مگر میں اچھے سے فری نہیں ہو پائی تھی میں نے عمر کا موٹو اپنے ہاتھ سے باہر نکال دیا اور خود انگلی سے کام کرنے لگی اور جب میں مکمل فری ہوئی تو میں نے عمر سے کہا کہ کیا ہے یار تم مجھے یونیورسٹی سے دیتے آ رہے ہو مگر تم سے ہوتا بھی کچھ نہیں ہے تم مجھے ادھورا ہی چھوڑ دیتے ہو اور اگر میں تمہیں کہتی ہوں کہ اپنا علاج کروا لو تو بھی تم غصہ کر جاتے ہو اب مجھے سکون کون دلائے گا دیکھو عمر سب ہی یہ کام کرتے ہیں اور سب کو ہی ڈاکٹر اور حکیم کی ضرورت پڑتی ہے تم بھی کسی سے رابطہ کر لو اور زیادہ ہی شرم آتی ہے تو ایسے ڈاکٹر یا حکیم ہیں جن کو اس صیغہ رات میں ہیں تم ان سے مل لو عمر نے کہا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں تمہیں ہی آگ زیادہ لگی ہوئی ہے میں تو کیا تمہاری آگ کوئی بھی نہیں مکمل بجھا سکتا میں نے اپنے کپڑے پہنے اور کار کی سیٹ سے نکل کر کار کی اگلی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی عمر نے بھی میری طرف کوئی توجہ نہ کی اور کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا ڈرائیو کرنے لگا میں کار میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ عمر تو میری خواہش اچھے سے نہیں پوری کر پاتا میں کسی ایسے نوجوان کی تلاش کروں جو مجھے فل مزہ دے سکے اور ایسے ہر بار ہی ادھوری رہ جاتی ہوں یہ مجھے بہت ہی جوش کے ساتھ یونیورسٹی سے لے آتا ہے اور اپنا کام پورا کرتا ہے اور مجھے جیسے تیسے چھوڑ کر اپنا کام کرنے لگتا ہے میں کیا کروں جب مجھے مزہ نہیں آتا تو مجھے اس کے ساتھ اتنا خطرہ لینے کی کیا ضرورت ہے میں خطرہ تو تب لو نا کہ مجھے بھی سکون ملے میں انہی باتوں میں تھی اور عمر بھی چپ چاپ کار چلا رہا تھا اچانک عمر نے کار روک لی میں نے کہا کہ اب کیا ہوا ہے کار کیوں روک لی ہے عمر نے کہا تمہارے گھر کی گلی آ گئی ہے اگر تمہیں یاد ہو میں تمہیں یہیں اتار کر جاتا ہوں آگے کا راستہ تم خود طے کرتی ہو میں نے ادھر ادھر دیکھا تو میں سچ میں اپنے گھر کی گلی تک آ چکی تھی میں نے اپنا  بیگ اٹھایا اور کار سے نیچے اتر گئی میرے بال اور کپڑے ایسی حالت میں تھے کہ کوئی بھی شخص آسانی سے اس بات کا اندازہ لگا سکتا تھا کہ میں کیا کرتی ہوئی آئی ہوں اور کس حد تک کرتی رہی ہوں میں نے جلدی سے اپنے گھر کا راستہ لیا میں گھر جا کر خود کو ٹھیک کر سکوں کہ اس وقت گھر کوئی بھی نہیں ہوگا۔ ماں چھت پر ہوگی اور بابا اپنے کام پر اور بھائی کالج میں گیا ہوگا۔ عمر نے بھی اس بار مجھے کوئی الوداعی الفاظ نہیں کہے تھے۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ میں بھی غصے میں ہوں اور وہ بھی غصے میں ہے۔ جب گھر میں داخل ہوئی تو ماں سامنے دروازے پر کھڑی تھی۔ اور میرا بھائی ناصر چھت پر کھڑا باہر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھے لگا کہ انہوں نے مجھے کار سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔ مگر ماں نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہوئے تو ماں نے مجھے کہا کہ وہ لڑکا کون تھا۔ نے کہا کہ وہ لڑکا وہ میرا کلاس فیلو تھا اور مجھے گھر تک چھوڑنے آیا تھا.


ماں نے کہا کہ اس کا نام کیا ہے? میں نے کہا کہ ماں تم نے نام جان کر کیا کرنا ہے? ماں نے کہا کہ تم نام نہ بتا کر کیا کر لو گی? میں نے کہا کہ کچھ بھی نہیں. تو ماں نے کہا کہ پھر بتا کیوں نہیں دیتی ہو? میں نے کہا کہ ماں اس کا نام عمر ہے. ماں نے کہا کہ تمہارا اس لڑکے سے کوئی چکر وکر تو نہیں ہے نا? میں نے کہا کہ ماں نہیں میرا کوئی اس سے چکر وکر نہیں.

اس سے تو کیا میرا کسی سے بھی کوئی چکر نہیں. "" ماں نے کہا کہ اچھا اور کسی سے ہونا بھی نہیں چاہیے. میں نے کہا کہ ماں تم مجھ پر یقین کرو. میں کسی کو بھی نہیں ماں نے کہا کہ کیا مطلب کسی کو بھی نہیں دو گی میں نے کہا کہ مطلب وہی جو تم سمجھ رہی ہو میں کسی کو بھی نہیں دوں گی کسی لڑکے کو بھی نہیں دوں گی جس لڑکے کو تم اور بابا پسند کرو گے میں اسی کو ہی دوں گی بس اور کچھ میں نے دل میں کہا کہ معلوم نہیں میں کتنی بار دے چکی ہوں یہ ماں ابھی تک انہی باتوں میں کیوں لگی ہوئی ہے کہ میں کسی لڑکے سے کروا کر نہ گھر آجاؤں میں نے ماں سے یہ سب بولا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی جب میں کمرے میں داخل ہو رہی تھی تو ناصر بھی چھت سے تھا ناصر نے مجھ سے پوچھا کہ ماں کیا کہہ رہی تھی میں نے کہا کہ ماں بول رہی تھی کہ تم کہیں کسی لڑکے سے مروا کر تو نہیں آ رہی ہو میں گھر میں اکثر باتیں ایسے ہی کرتی تھی کسی کا لحاظ نہیں کیا کرتی تھی اور جو بھی بات ہوتی تھی میں منہ پر ہی بول دیتی تھی ناصر نے کہا تم اور تمہاری زبان میں تو حیران ہوتا ہوں تمہاری اس گفتگو سے جیسے تم باتیں کرتی ہو میں نے کہا کہ ہاں سچ ہی تو بول رہی ہوں ماں کو تو بس اس بات کا ہی ڈر رہتا ہے کہ میں کسی کو دیکھ کر تو نہیں ہوں یا کسی نے میری لے تو نہیں لی ہے مجھے تو سمجھ نہیں آتی ہے کہ اس کے علاوہ ماں کو کوئی اور بات یاد ہی نہیں رہتی ہے میں اپنے کمرے میں چلی گئی اور نہ صرف گھر سے باہر چلا گیا رات میں ابو آئے تو ماں نے ان سے بھی سب بول دیا اصل میں وہ میرے ابو تھے ہی نہیں میری ماں نے دوسری شادی کی تھی ان سے اور تب سے وہ ہمارے ابو بن گئے تھے اور ماں رات میں اس سے دن بھر کی ہونے والی تمام تر باتیں بتایا کرتی تھی میں نے کافی بار کہا تھا کہ اب ان کو ساری کہانی نہ سنایا کریں آپ ساری سنا دیتی ہیں کچھ بچا کر بھی رکھ لیا کریں اور کچھ چھپا کر بھی رکھ لیا کریں مگر ماں تو انہیں سب کچھ بتانا اپنا فرض سمجھتی تھی سنو نے میرا بھی بتا دیا تھا ابو نے مجھے اپنے کمرے میں بلوایا اور کہا کہ تمہاری ماں مجھے کیا بتا رہی ہے تم کسی لڑکے کے ساتھ آج کل پھر رہی ہو میں نے ابو سے کہا کہ میں نے ماں سے بھی کہا ہے کہ میں نے ایسا ویسا کچھ بھی نہیں کیا ہے ابو نے کہا کہ کیا مطلب ہے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہے میں نے غصے سے کہا کہ میرا مطلب تھا کہ میں نے نہ اسے ہے نہ اس نے میری لی ہے ابو نے کہا کہ تم ایسے کیوں بولتی رہتی ہو کوئی تمیز سے بات کیا کرو میں نے کہا تو میں کیا تمیز سے بات کروں آپ کو یہی یاد ہوتا ہے ہر وقت کہ میں نے کسی سے کچھ کروا تو نہیں لیا ابو نے کہا کہ تم اپنے کمرے میں جاؤ اور آرام کرو میں وہاں سے اٹھی اور اپنے کمرے میں آ گئی رات میں مجھے عمر کی کال آئی عمر نے کہا کہ ابھی بھی تم ناراض ہو مجھ سے میں نے کہا کہ نہیں میں تم سے ناراض تو نہیں ہوں مگر مجھے تم پر وقتی طور پر غصہ آیا تھا مجھے ابھی غصہ اپنی ماں پر آ رہا ہے کہ وہ پتہ نہیں کیا کرنا چاہتی ہیں خود کو وفادار ثابت کر کے عمر نے کہا کہ کیا ہوا ہے کچھ مجھے بھی تو بتاؤ گی کہ نہیں میں نے کہا کہ میں کیا بتاؤں یار ماں کو بس ایک ہی بات کی پڑی رہتی ہے کہ میں کسی سے کچھ کروا نہ لوں کوئی ان کو بتائے کہ اگر میں نے کروانا ہی ہے تو میں نے ان کو بتا کر تو نہیں کروانا ہے نہ جس سے میرا دل کرے گا میں نے اس سے جا کر اپنا کام کروا لینا ہے یہ کیا کر لیں گے عمر نے کہا تو تم نے ان کو بتا تھا نا کہ میں نے عمر سے سب کچھ کر لیا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ تمہیں ہی دیکھ کر تو ایسی باتیں ہوئی ہیں۔ اس ناول کا اگلا حصہ نئی آنے والی قسط میں اپلوڈ کیا جائے گا۔





Post a Comment

Previous Post Next Post